سعودی عرب اور روس کے درمیان ’تیل کی جنگ‘ کیسے شروع ہوئی؟
دنیا بھر کی معیشت دہری مشکلات سے دوچار ہے۔ اس کی ایک وجہ کورونا وائرس ہے تو دوسری طرف تیل پر شروع ہونے والا تصادم ہے۔ سعودی عرب اور روس کے مابین شروع ہونے والے تنازعے سے خام تیل کی قیمت جیسے سر کے بل نیچے گری ہو۔
تیل کے معاملے میں امریکہ کے خود کفیل ہونے کے بعد روس اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار پر تنازع شروع ہو گیا ہے۔
سعودی عرب نے قیمتوں میں اضافے کی غرض سے تیل کی پیداوار میں کمی کی تھی۔ سعودی عرب اس کے ذریعے کورونا وائرس کی وجہ سے ہونے والی مندی کو کم کرنا چاہتا تھا لیکن اسی دوران روس نے اپنا رد عمل ظاہر کر دیا۔
روس نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے ساتھ تعاون کرنا بند کر دیا۔ کہا جارہا ہے کہ روس ایشیائی مارکیٹ میں تیل کی برآمد میں سعودی عرب کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے جا رہا ہے
سعودی عرب اب 25 امریکی ڈالر فی بیرل تک خام تیل فروخت کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔
کورونا وائرس چیلنجز کے درمیان جمعے کے روز تیل کی قیمتیں سنہ 2008 کی معاشی مندی کے بعد سب سے کم سطح پر پہنچ گئی ہیں۔
کورونا کی وجہ سے خام تیل کی طلب اور رسد کے مابین کوئی توازن نہیں بن پا رہا ہے
دسمبر 2016 میں روس اور سعودی عرب نے ویانا میں 11 غیر اوپیک ممالک (اب 10) اور اوپیک ممالک کے مابین ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
اس معاہدے کا مقصد تیل کی قیمتوں کو مستحکم رکھنا تھا اور اسے کم نہیں کرنا تھا۔ ابتدا میں یہ معاہدہ چھ ماہ کے لیے تھا لیکن بعد میں اس کی آخری تاریخ میں توسیع کر دی گئی۔
اسے اوپیک پلس کہا گیا۔
اس کے تحت اوپیک اور روس کی سربراہی میں اوپیک کے تیل پیدا کرنے والے ممالک تیل کی پیداوار میں توازن برقرار رکھنے پر کام کریں گے۔ دسمبر 2019 میں اس معاہدے میں 20 اپریل تک کی توسیع کی گئی تھی اور توقع کی جارہی تھی کہ یہ مزید جاری رہے گا۔
دریں اثنا روس اور سعودی عرب نے اپنے معاشی مفادات کے مطابق متعدد معاہدوں پر دستخط کیے لیکن چھ مارچ کو ایک چونکا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ تاہم روس پر نگاہ رکھنے والے پہلے ہی اس سے واقف تھے۔
ویانا میں سعودی عرب نے روس کو تیل کی پیداوار میں کمی کی تجویز پیش کی تاکہ مطالبے کے مطابق قیمت مستحکم رہے۔
روس نے نہ صرف اس مطالبے کو مسترد کیا بلکہ یہ اعلان بھی کیا کہ اب وہ پہلے کی طرح ویانا معاہدے کا پابند نہیں ہو گا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اوپیک پلس ختم ہوا۔ یہیں سے روس اور سعودی عرب میں تیل کے تنازعے کا آغاز ہوا جسے تیل کی جنگ کہا جاتا ہے۔
تیل کی قیمتوں پر سعودی عرب اور روس کے مابین جاری تلخی بڑھتی جارہی ہے۔ روس اور اوپیک اس سپلائی کو روکنے کے لیے کسی نئے معاہدے پر راضی نہیں ہو سکے ہیں جبکہ سعودی عرب نے تیل کی قیمت کم کر کے سپلائی بڑھانے کی بات کہی ہے۔
خبر رساں ادارے رویٹرز کے مطابق سعودی عرب اب بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر روس کی بجائے چین اورانڈیا میں تیل خریدنے والوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ روسی تیل کی مانگ بہت کم ہے اور سعودی عرب اپنے ساتھی ممالک کو تیل کی مزید سپلائی لینے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں