سوشل
میڈیا پر خلیل الرحمن قمر کے انٹرویو کے دوران ماروی سرمد کے ساتھ رویے پر تنقید،
عورت مارچ کے نعرے اور پوسٹر زیرِ بحث
<script data-ad-client="ca-pub-2171488997254233" async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script>
یہ
واقعہ نیو نیوز کے ایک پروگرام پر پیش آیا جس میں عورت مارچ کے حق اور مخالفت میں
دلائل دیے جا رہے تھے۔ خواتین کی ریلی 8 مارچ کو ہونے جا رہی ہے لیکن اس سے قبل ہی
اسلام آباد میں کچھ افراد نے ایک دیوار پر
بنی تصویر پر سیاہی مل کر اسے خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔
سوشل
میڈیا پر کئی صارفین نے خلیل الرحمن قمر کی جانب سے ماروی سرمد کے لیے نفرت انگیز
الفاظ کے استعمال پر ایسے رویوں کی مذمت کی ہے جبکہ بعض لوگ چینل کی انتظامیہ اور
اینگر پرسن پر کچھ نہ کرنے پر تنقید کر رہے ہیں۔
بعض صارفین کی جانب سے خلیل الرحمن قمر کی حمایت
میں بھی ٹویٹس کیے گئے جس میں انھوں نے ڈرامہ نگار کے رویے کا جواز پیش کرنے کی
کوشش کی ہے۔
نجی ٹی
وی چینل کے اس ٹاک شو میں معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمن قمر اور صحافی ماروی سرمد
کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا فیض محمد بھی موجود تھے۔
بات
اس وقت بگڑی جب عورت مارچ کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے خلیل الرحمٰن
قمر نے کہا کہ ’اگر عدالت نے ’میرا جسم میری مرضی‘ جیسے ’غلیظ اور گھٹیا‘ نعروں پر
پابندی لگا دی ہے تو جب میں ماروی سرمد صاحبہ کو یہ جملہ بولتے سنتا ہوں تو میرا
کلیجہ ہلتا ہے۔‘
ایسے
میں ماروی سرمد نے اس نعرے کو دہرا دیا جس سے خلیل الرحمن قمر مشتعل ہو گئے اور
سخت لہجے میں انھیں خاموش رہنے اور اپنی باری پر بولنے کے بارے میں کہنے لگے۔
یہ سلسلہ
تقریباً دو منٹ تک جاری رہا جس میں خلیل الرحمن قمر کی جانب سے نازیبا جملوں کا
استعمال بھی ہوا جن کا ذکر یہاں نہیں کیا جا سکتا۔
اس
شو کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد سے میرا جسم میری مرضی، خلیل
الرحمن قمر اور عورت مارچ ٹاپ ٹرینڈ بنے ہوئے ہیں۔
یہ
پروگرام نجی ٹی وی چینل نیو نیوز پر نشر ہوا تھا اور اس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور
صحافی نصراللہ ملک نے ماروی سرمد سے گذشتہ رات رونما ہونے والے واقعے پر معافی
مانگتے ہوئے کہا کہ ’بطور سربراہ نیو نیوز میں انتہائی معذرت خواہ ہوں اور اس
حوالے سے سخت کارروائی کی جائے گی۔
سابق
رکنِ پارلیمان بشریٰ گوہر نے اس واقعے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ اس طرح کی
دھمکیاں، گالیاں اور بدزبانی خواتین کو اپنے حقوق مانگنے سے نہیں روک سکتیں۔
انھوں
نے کہا کہ پیمرا کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے۔
صحافی
اسد علی طور نے کہا کہ ’یہ سب کیسے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جا سکتا ہے؟ پیمرا کہاں
ہے؟ کسی کو بھی انھیں اپنے شو پر دعوت نہیں دینی چاہیے۔‘
سوشل
میڈیا پر ایک صارف نے لکھا کہ عورت مارچ سے پہلے ہی لوگ ڈرنا شروع ہوگئے ہیں اور
اس کے خلاف متحرک ہوگئے ہیں۔
سوشل
میڈیا پر اس بارے میں بھی بحث جاری ہے کہ عورت مارچ کے نعروں اور تصاویر سے لوگ
مشتعل کیوں ہو رہے ہیں۔
کچھ
افراد نے اسلام آباد کے علاقے جی سیون کی ایک دیوار پر عورت مارچ کے حوالے سے
بنائی گئی تصویر کو کالی سیاہی پھیر کر خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔
<script data-ad-client="ca-pub-2171488997254233" async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script>
یہ
واقعہ منگل کی شب کو پیش آیا اور اس کے حوالے سے کارکنان کا کہنا ہے کہ آرٹسٹس نے
یہ میورل کافی محنت سے بنائے تھے اور ان کا مقصد خواتین کے حقوق کو فروغ دینا تھا
لیکن اب انھیں ایک مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے جان بوجھ کر بگاڑ دیا
ہے۔
دیوار
پر پینٹ کرنے والی آرٹسٹ اور منتظم ندا مشتاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ
’دیوار پر پینٹ کرنے کا مقصد عورت آزادی مارچ کے حوالے سے موجود غلط تاثرات کو
مٹانا تھا۔‘
انھوں نے
کہا کہ عورت آزادی مارچ سے پہلے شہر کے مختلف حصوں میں پینٹ کرنے کے لیے طلبہ اور
دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد یکجا ہوئے۔‘
’ہمیں اس
دیوار کو رنگنے میں دو دن لگے۔ کئی لوگوں نے ہماری اس کوشش کو سراہا بھی۔ جن میں
سے کچھ نے محّلے کی چند اور دیواروں کو رنگوانے کے بارے میں بات بھی کی۔‘
ندا
نے کہا کہ پولیس نے یہ سب دیکھتے ہوئے ان لوگوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ جبکہ اس
علاقے میں رہائش پذیر لوگ اب اس دیوار کو دوبارہ رنگوانا چاہ رہے ہیں ’تاکہ خواتین
کے خلاف لکھی گئی فحش باتیں مٹا سکیں۔‘
اس
الزام پر کہ پولیس نے جی سیون تھری میں بنے میورل کو خراب کرنے میں حملہ آوروں کی
مدد کی، اسسٹنٹ کمشنر سٹی محمد دانش نے بتایا کہ واقعے کی معلومات اب
بھی حاصل کی جارہی ہیں۔
اس
کے علاوہ سوشل میڈیا پر کچھ ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے
کہ کچھ مشتعل افراد عورت مارچ اور اس کے منتظمین کے خلاف نعرے لگا رہے ہیں۔
<script data-ad-client="ca-pub-2171488997254233" async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js"></script>

تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں